Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر14

وہ جانتا تھا کہ اس وقت بلال کو اس کی ضرورت ہے تو وہ نور کے سونے کا انتظارا کرتا رہا جب وہ سو گئی تو شاہ بلال کے روم کی طرف ایا لیکن وہ روم میں نہیں تھا اب شاہ پریشان ہوا اگر اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا تو وہ غصہ میں گاڑھی تیز چلاتا ہے ایسی بہت سی سوچے شاہ کو پریشان کر رہی تھی وہ چلتا ہوا حریم کے روم میں ایا لیکن کمشش میں تھا اندر جائے یا نہیں لیکن پھر اندر ایا حریم شاہ کو دیکھا کر پریشان ہوئی جبکہ شاہ بلال کو دیکھ کر پر سکون ہوا شاہ کیا کچھ ہوا ہے حریم نے پوچھا جبکہ شاہ مسکرایا نہیں چھوٹی ماں کچھ نہیں ہوا اور آپ میری جگہ اس کو کیسے دے سکتی ہے شاہ نے بلال کی طرف اشارہ کیا جو کہ حریم کی گود میں سر رکھے سویا ہوا تھا بچین سے ہی حریم کی گود میں صرف شاہ ہی سر رکھتا تھا اگر غلطی سے بلال یہ حرکت کرتا تو شاہ پورے گھر کو سر پر اٹھا لے تھا کیونکہ شاہ اپنی چھوٹی ماں سے بہت محبت کرتا تھا شاہ جھوٹ نہیں کیا ہوا ہے حریم نے لہجہ میں پریشانی لیے پوچھا شاہ اس کو پریشان دیکھ کر بولا کیا ہوا ہے چھوٹی ماں تو حریم نے ساری بات بتائی ( جو ابھی بلال اور احمد میں ہوئی تھی ) جبکہ کہ شاہ حریم کی بات پر شاکڈ تھا وہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ بلال نے بےتمیزی کی وہ بھی چھوٹے پاپا سے حریم نے اپنی بات ختم کی اور شاہ کو سوالیاں نظریں سے دیکھا جیسے پوچھنا چاھ رہی ہو کہا ہوا کیا ہے جو بلال ایسے ری ایکٹ کر گیا وہ چھوٹی ماں بلال اور نور کا جھگڑا ہو ہے وہ یہ اس کی بات کو دل پر لے گیا ہے شاہ نے جلدی سے بات بنائی جبکہ حریم کچھ پر سکون ہوئی اچھا چھوٹی ماں آپ بھی سو جائے میں بلال سے صبح بات کر لو گا اور پریشان نہیں ہوے گیا سب ٹھیک ہو جائے گا شاہ نے حریم کا ماتھا چومتے ہوے کہا حریم نے جاتے ہوے شاہ کو آواز دی تو وہ رکا احمد نیچے ہو گئے ان کو دیکھا لو اور ان سے کہنا کہ روم میں ائے حریم نے کہا جی شاہ نے کہا اور روم سے باہر آیا حریم کو تو وہ مطمئین کر گیا لیکن چھوٹے پاپا شاہ نے سوچا لیکن پھر بسم اللہ کرتے نیچے ایا جو بھی تھا احمد کا سامنا کرنا تھا چھوٹے پاپا یار آپ یہاں کیا کر رہے ہے شاہ نے انجان بنتے ھوے پوچھا جبکہ اس کی بات پر احمد نے شاہ کو صرف گھورا یعنی وہ ساری بات بتائے کہ ہوا کیا ہے احمد کے گھورنے پر شاہ گھبرایا پھر وہی بات اس کو بتائی جو حریم کو بتائی تھی تمہارا باپ ہو میں یہ تم میں جو کہا ہے یہ آدھی بات ہے بکی آدھی احمد نے سرد لہجہ میں کہا جبکہ شاہ اس کی بات پر حیران نہیں ہوا وہ جانتا تھا جب تک وہ ساری بات جان نہیں لیتے ایسے ہی سوال کرے گئے چھوٹے پاپا میں بلال کی طرف سے معافی مانگتا ہوں شاہ نے کہا شاہ نور ٹھیک ہے احمد نے اس کی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا جی وہ ٹھیک ہے شاہ نے کہا اور شکر کیا کہ احمد نے بات زیادہ نہیں بڑھی احمد نے گہرا سانس لیا چھوٹے پاپا وہ بس غصہ میں تھا آپ جانتے ہے وہ ایسا نہیں ہے صبح وہ معافی مانگے گا شاہ نے بلال کی بات کرتے ہوے کہا جبکہ احمد خاموش رہا چھوٹے پاپا چھوٹی ماں آپ کو یاد کر رہی ہے روم میں شاہ نے شرارت سے کہا ٹھیک ہے تم جاو احمد نے تھک ہوے اندز میں کہا


شاہ روم میں ایا بے شک آج کا دن اور یہ رات بہت باری تھی ایک نظر نور کو دیکھا جو سوتے ہوے بہت معصوم دیکھ رہی تھی یہ اچھا ہے دونوں بہن بھائ میری نیند حرام کر کے خود سو رہے ہے شاہ بڑابڑیا اللہ پوچھا تمہیں بلال جو حرکت تم نے کی ہے آج میں نے چھوٹے پاپا اور چھوٹی ماں سے جھوٹ بولا وہ بھی تمہاری وجہ سے شاہ بلال کوستا ہوا سوگئے 💝💝💝💝 احمد روم میں ایا تو حریم اس کا انتظارا کر رہی تھی بہت دیر ان کے درمیان خاموشی رہی دونوں اپنی اپنی جگہ شرمندہ تھے حریم احمد دونوں ایک ساتھ بولے بولو حریم کیا کہنا چاہتی ہو احمد بولا احمد میں بلال کی طرف سے معافی مانگنا چاہتی ہو میں جانتی ہوں کہ بلال کی باتوں سے تم ہڑٹ ہوے ہو پلیز پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا حریم نے کہا اور صوفہ پر بیٹھ گئی حریم مجھے کچھ کہنا ہے اب احمد بولا تو جواب میں حریم نے بس اہم کہا اور روم میں پھر سے خاموشی ہوگئی احمد مناسب الفاظ تلاش کر رہا تھا حریم تمہیں کیا لگتا ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا قیصوار میں نے تمہیں ٹھریا ہے میں نے تمہیں کوئی سزا دی نہیں حریم میں نے خود کو سزا دی ان بیس سالوں میں نے تمہیں دیکھا نہیں تم سے بات نہیں کی یہ سزا میں نے اپنے لیے تجیوی کی تمہیں یاد ہو گا شادی کی رات میں نے وعدہ کیا تھا تمہاری حفاظت کرو گا لیکن میں وہ وعدہ پورا نہیں کر سکا تمہاری کیا میں اپنی ڈول کی حفاظت نہیں کر سکا وہ ایا اور میری ڈول کو لیے گیا میں کچھ نہیں کر سکا حریم لیکن ان سب میں میں تمہارے ساتھ بہت غلط کر گیا مجھے معاف کردو احمد نے بے بسی سے کہا شائد بلال کی باتوں نے اس کو آئینہ دیکھا دیا تھا بیس سال بیس سال حریم کی سسکیوں میں ایک آواز ائی احمد اگئے ایا لیکن اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جیسکا مطلب تھا کہ وہ.وہی رہے حریم نے پھر سے بولنا شروع کیا بیس سال گزرا گئے احمد کیا وہ میری بیٹی نہیں تھی احمد وہ تو میرے جسم کا حصہ تھی میں یہ نہیں کہتی کہ میرا دکھ بڑا تھا اور تمہارا چھوٹا یہ ہمہارے دکھ تھا لیکن افسوس کہ تم اکیلے ماتم کرتے رہے اور میں اکیلی تم نے ایک بارا میں جھوٹی تسلی نہیں دی میں نے کوشش کی ہر بار تمہیں تسلی دے دو لیکن تمہاری ضد نے میری ہر کوشش ناکام کی سوچوں احمد ایک لاوارث لڑکی کو تم نے اپنا نام دیا وہ اٹھ سال بعد پھر سے لاوارث کر دیا کیسا محسوس ہوتا ہو گا مجھے اور پھر اس لڑکی کی زندگی میں اس کی وہ بیٹی واپس ائی جو اس سے نفرت کرتی ہے اور شائد ساری زندگی کرتی رہے گئی پتا ہے احمد اب نور کو دیکھ کر میں سوچتی ہو کہ کاش میں تم سے شادی کرنے سے بہتر مر جاتی حریم نے روتے ہوے کہا جبکہ احمد اس کی بات پر اور شرمندہ ہوا سوری حریم سوری میرے پاس الفاظ نہیں ہے کہ ایک موقع نہیں دو گئی احمد نے ایک امیدی سے پوچھا اس کو شرمندہ دیکھ کر ابھی کچھ آگ باقی تھی🔥 تیرے ملنے بچھڑنے کی 💔 میرا تن من بکھڑنے کی😥😥 میری سانسیں اکھڑنے کی ❣ احمد میں نے اپنی زندگی کے اٹھ بہتریں سال تمہارے ساتھ گزراے ہے اور ان بیس سالوں کی وہ بے رخی مجھے تھوڑ نہیں پائی میں ان بیس سالوں سے اس دن کی منتظر کی کہ کب تم میرے پاس او گئے اور کبھی میں تم سے کہوں گئی میں نے تمہیں معاف کیا احمد معاف کیا کیونکہ مجھے تم سے محبت ہو گئی احمد اور محبت میں محبوب کو معاف کر دیا جاتا ہے مجھے میری محبت نے کمزور کر دیا احمد حریم چلتی ہوئی احمد کے پاس ائی اور اس کے سینے پر مکار مارنے لگی میں نے معاف کیا احمد میں نے معاف کیا حریم نے کہا جبکہ احمد کو شاک لگا حریم اور محبت کہی میں کچھ غلط تو نہیں سن رہا لیکن پھر مسکرایا حریم مجھے درد ہو رہا ہے احمد نے اس کے مکار مارنے پر چوٹ دی جبکہ حریم نے ہاتھ روک کر احمد کی طرف دیکھا اور پیچھے ہوئی اور واپس صوفہ کی طرف ائی جبکہ احمد نے اس کے بیٹھنے سے پہلے اپنی طرف کیھچا تو وہ اس کے سینے سے الگئی بہت دیر وہ دونوں روتے رہے پھر احمد نے اس کو خود سے الگ کیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ڈیڈ ماما بلال جو کب سے جھگا ہوا تھے بولا وہ دونوں روم میں بلال کے سو ہوے واجود کو فراموئش کیا ہوے تھے مجھے معاف کر دے ڈیڈ بس آپ کو احساس دی لانا چاھتا تھے اس لیے وہ سب بکوس کر گیا کیونکہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں میں آپ کو اور ماما کو اور روتے ہوے نہیں دیکھا سکتا بلال نے شرمندہ ہوتے ہوے کہا جبکہ احمد کچھ وقت اس کو دیکھتا رہا پھر اگے بڑھ کر بلال کو گلے سے لگیا شکریہ ڈیڈ کی جان مجھے فجر ہے تم پر احمد نے کہا کیونکہ آج سب بلال کی وجہ سے سب ٹھیک ہو تھا جبکہ بلال مسکرا پھر حریم نے بلال کو اپنے ساتھ لگیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا کچھ دیر سب کی آنکھیں نم رہی پھر احمد بولا یار تمہیں شرم نہیں اتی میاں بیوی کی باتے سنتے ہوے جبکہ بلال مسکرایا نہیں میں نے اپنے ماما اور ڈیڈ کی باتے سنی ہے اس میں شرم کیسی صیح جا رہو ہو بیٹا احمد نے اس کے سر پر چیپ لگتے ہوے کہا ڈیڈ آپ سین آون کرے میں چلتا ہوں بلال نے کہا اور وہاں سے فورا بھاگ جبکہ بلال کی بات پر حریم کا منہ کھول گیا اور احمد کا قہقہا لگا احمد آپ ہسنے رہے ہے بلال بہت بے شرم ہوتا جا رہا ہے کوئی شرم باکی نہیں ہے اس لڑکے میں حریم نے غصہ سے کہا حریم تم غصہ میں آج بھی اتنی ہی پیاری لگتی ہو تو پھر سین آون کرے احمد نے شرارت سے کہا احمد اس عمر میں بھی شرم نہیں انی آپ کو حریم نے کہا اور بیڈ پر لیٹ گئی اور احمد بھی مسکراتا ہوا یبڈ پر لیٹ گا آج ان دونوں کو سکون کی نیند انی تھی کیونکہ دونوں نے ایک ایسا سفر کیا تھا جو کہ صبر کے بغیر ممکن نہیں تھا


نور کی آنکھ کھولی تو شاہ شسشہ کے سامنے تیار ہو رہا تھا گھڑی دیکھی تو صبح کے ۹ بجے رہے تھے اتنی دیر تک میں کیسے سوتی رہی نماز بھی نہیں پڑھی آج میں نے نور نے خود سے کہا پھر بیڈ سے اٹھی تو تو اچانک سر میں درد اٹھا اور چکر کھاتی زمیں پر گرئی شاہ تو اس کے گرنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا نور شاہ نے کہا اور بھاگ کر نور کے پاس ایا نور کیا ہوا شاہ نے اس کو بیڈ پر بیٹھتے ہوے پوچھا پتا نہیں بس سر چکرا رہا ہے نور نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا اوکے ری ریلکس نور ڈاکٹر نے کہا تھا کچھ ماہ کی بات ہے سر درد ٹھیک ہو جائے گا وارث نے کہا وارث مجھے واش روم جانا ہے نور نے کہا اوکے شاہ اس کو سہارا دیتے ہوے واش روم تک لایا میں باہر ہو آپ جاو وارث نے کہا لیکن نور اندر نہیں گئی وارث مجھے نہیں ہو رہا سر بری ترہا چکرا ہے نور نے رونہسی کہا ٹھیک ہے میں باہر کیسی کو دیکھتا ہوں تو آپ کی مدر کر دے وارث نے کہا اور روم کے باہر چلا گیا کچھ دیر بعد واپس ایا تو ساتھ حریم تھی جبکہ نور حریم کو دیکھا کر شاکڈ تھی اس. نے ایک بار وارث کو دیکھا اور وارث نے آنکھیں ہی آنکھیں میں کچھ اشارہ کیا جیسکا مطلب تھا کہ ری ریلکس کچھ نہیں ہو گا حریم اس کی طعبیت کا سن کر پریشان ہوئی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ نور اس سے نفرت کرتی وہ اس سے مدر نہیں لے گئی لیکن نور کو خاموش دیکھ کر وہ حیران ہوئی


دو دن ہو گئے تھے لیکن بلال نور کے پاس نہیں آیا وہ اب بھی نور سے ناراض تھا اور نور نے بہت کوشش کی کے وہ بلال سے بات کرے لیکن وہ نور کو زیادہ تر اگنور کرتا نور کو اس کا رویہ برا لگا آج نور نے اس کے لیے بریانی بنائی لیکن بلال اب تک گھر نہیں آیا نور کو اس کا انتظارا کرتے ۱۲ بج گئے نور اب مایوس ہوئی وہ اب رونا ارہا تھا وہ بالکنی میں بیٹھی کچھ سوچنے میں مصروف تھی تو شاہ اس کے پاس ایا نور سرد ہو رہی ہے اندر اجائے شاہ نے کہا وارث بھائ کیوں نہیں ائے اب تک نور نے پوچھا اس کو کوئی کام تھا شائد لیٹ ائے شاہ نے سراسری سا جواب دیا اور اندر اگیا کچھ وقت بعد بھی نور روم میں نہیں ائی تو شاہ دوبارا بالکنی میں گئے نور کیا سونا نہیں ہے آج وارث نے پوچھا وارث بھائ مجھے سے بہت ناراض ہے وہ مجھے سے بات بھی نہیں کرتے میں کیا کرو نور نے کہا اور آخری بات پر رونے لگئی نور آپ فون کر لو اس کو بات کرو اس سے میرا نہیں خیال کہ وہ آپ سے زیادہ دیر تک ناراض رہا سکتا ہے وارث نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوے کہا اور اگر انہوں نے میرا فون نہیں اٹھیا تو نور نے پوچھا تو شاہ مسکرایا ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے نور نے گہرا سانس لیا اور بلال کو فون کیا بیل جا رہی تھی ہیلو بلال کی آواز ائی مصروف سی بھائ نور نے بس اتنا ہی کہا ڈول کیا ہوا ہے کیونکہ اس کی آواز سے پتا چل رہا تھا کہ وہ رو رہی ہے بھائ آپ کب تک گھر او گئے نور نے ہمت کر کے پوچھا لیکن دوسری طرف اب خاموشی تھی نور میں کچھ مصروف ہو کام ختم ہوتے ہی اجاو گا بلال نے لہجہ میں اب نرمی نہیں تھی اور فون بند ہو گیا نور کو برا لگا لیکن پھر کچھ سوچ کر مسکرائ اور اندر روم میں گئی


صبح نور نے نماز ادا کی اور پھر بالکنی میں ائی اس کی نظر نیچے گئی اس ہی وقت گھر میں بلال کی گاڑھی داخل ہوتی دیکھی دی اس کا مطلب تھا کہ وہ ساری رات گھر نہیں آیا کچھ وقت بعد نور اب بلال کے روم میں موجود تھی اور بلال روم میں نہیں تھا اور واش روم سے پانی گرانے کی آواز آرہی تھی بلال باہر آیا تو نور کو اپنے روم میں. دیکھا کر حیران ہوا لیکن پھر اگنور کرتا ہوا شسشہ کے پاس ایا بھائ مجھے آپ سے بات کرنی ہے نور نے کہا نور مجھے سونا ہے بعد میں بات کرتے ہے بلال نے کہا بھائ میں سوری کرنے ائی ہو مجھے وہ کچھ نہیں کہانا چاہی تھا نور نے اس کی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا اور رونے لگئی بلال اس کے رونے سے اور بھی چرے گیا نور آگر آپ کا ایک بھی انسو اور نکالا تو مجھے سے برا کوئی نہیں بلال نے سختی سے کہا اس کی بات پر نور نے اپنا چہرہ مڑ لیا لیکن روم سے نہیں گئی کچھ وقت روم میں خاموش رہی بلال اس کو دیکھتا رہا اور نور منہ مڑے بے آواز روتی رہی بلال نے گہرا سانس لیا اور چلتا ہوا اس کے پاس ایا نور کو اپنے ساتھ لگیا شششش چپ بھائ کی جان بلال نے کہا بھائ سوری نور اس کے پہلے کچھ اور کہتی بلال نے اس کی بات کاٹی میں آپ سے ناراض نہیں تھا بس غصہ تھا مجھے آپ پر آپ کیسے کہا سکتی ہو کہ آپ کو اس گھر میں نہیں رہنا آپ کو میرے ساتھ نہیں رہنا بلال نے کہا بھائ بس مجھے نہیں پتا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کہا لیکن اب میں شرمندہ ہو آپ دو دن سے مجھے سے بات نہیں کر رہے ہے میں بہت پریشان ہو نور نے کہا نور مجھے سے وعدہ کرو کہ آج کے بعد آپ مجھے آپنی ہر بات شئیر کرو گئی بلال نے کہا تو نور اس سے الگ ہوئی وعدہ بھائ نور نے مسکراتے ہوے کہا اور بھائ میں اور وارث کل اسلام آباد جا رہے ہے نور نے اس کو بتایا جانتا ہوا شاہ نے بتایا تھا بھائ میں آپ کو بہت مس کرو گئی نور نے کہا میں بھی اپنے بچے کو بہت مس کرو گا بلال نے اس کے ہی اندز میں کہا

   0
0 Comments